کچھ دن پہلے میں نے “تھپڑ” کے  نام سے ایک فلم دیکھی ۔ کہانی ایک ہنستے بستے جوڑے کی تھی جہاں مرد گھر چلا رہا تھا ، اور عورت  جس کا نام امرتا تھا، اس کا گھر سنبھال رہی تھی ۔ امرتا کو ایک مثالی بہو کے طور پر دکھایا گیا اور وہ خوش بھی دکھ رہی تھی ۔ لیکن ان کی یہ مثالی بہو اس وقت مثالی نہیں رہتی جب اسے ایک گھر کے فنکشن میں اس کا خاوند غصے میں آ کر چہرے پر تھپڑ مار دیتا ہے ۔ اورغصہ بھی اس کو کسی اور پر ہوتا ہے ۔ وہ تھپڑ اتنا اچانک تھا کہ میرا دل سہم گیا۔ میں نے سکرین پر غور کرنا شروع کر دیا اس امید پر کہ کوئی تو آگے آ کر امرتا کا ہاتھ تھامے گا ، اس کو حوصلہ دے گا اس کے لیے آواز اُٹھائے گا ۔ لیکن وہ اکیلی کھڑی رہی ۔ اس بھرے مجمعے  میں امرتا کے اپنے والدین بھی آگے نہیں آئے ۔ وہ اس تھپڑ کی ذلت لے کر اکیلی کھڑی رہی ۔ اس ایک لمحے میں اس کے اپنے بھی اپنے نہیں رہے تھے  ۔عورت ہوتے ہوئے اس سین میں عورت کے اکیلے پن نے مجھے اپنی والدہ کا ایک واقعہ یاد دلا دیا ۔ وہ اس وقت اکیلی تھی جب ان کے چہرے پر ان  کے خاوند نے تب تک تھپڑ مارے جب تک ان کے چہرے سے خون نہیں نکل آیا ۔ انہیں بھی بچانے کوئی نہیں آیا ۔ وہ خود ہی اپنے زخموں کو سہلانے لگیں ۔ اور اگلے دن شوہر کے کہنے پر لپسٹک لگا کر لوگوں کے سامنے آئیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ گال پر نیل، سوجا ہوا چہرا،پوری کہانی سنا رہا تھا ۔ لیکن نا ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو اور نہ انہوں نے بتایا ۔  اس بھری محفل میں ، میری ماں اکیلی تھی ۔ جسے جانتے بوجھتے نہ کوئی دیکھ پایا ، نہ کچھ کہہ پایا ۔

اس اکیلے پن کا احساس  کچھ اور گہرا ہوا جب کچھ دن پہلے اسلام آباد میں نور کو بے رحمی سے قتل کر دیا گیا ۔ نور اس گھر کی دیواروں میں ، اس شخص کے رحم و کرم پر ، وہاں موجود نوکروں کی چہل پہل میں ، اکیلی تھی ۔ وہ جانتے تھے کہ کچھ غلط ہے ، لیکن وہ غلط کے ساتھ تھے ، اور نور اکیلی تھی ۔ ان آخری لمحات میں جب نور کی چیخیں سنی ان سنی کر دی گئیں ، نور اس خوف کے ساتھ اکیلی تھی ۔ وہ انسان جس پر نور نے یقین کیا ، ان آخری لمحات میں نور اس یقین سے محروم تھی ۔ نور اکیلی تھی ۔ اور جب نور نہ رہی ،تو اس کا ماضی اور حال اس  دنیا کے سامنے اکیلا تھا ۔ نور کی زندگی پر جو بھی سوال اُٹھا ، نور اس سوال کے سامنے اکیلی تھی ۔ “نور وہاں کیوں گئی؟ نور وہاں کیا کررہی  تھی؟ کچھ کیا ہوگا جو یہ ہوا ہے ؟ نور کی اس لڑکے سے دوستی تھی ؟ نور نے شادی کیوں نہیں کی ؟ نور کے ماں باپ نے اسے جانے کیوں دیا؟ ۔” سوال ہزار ہوئے ،اور سب نور سے ہوئے  ۔ ان سوالوں کے سامنے ، ہر الزام کے سامنے ، نور اکیلی تھی ۔

اگر آپ اس جرم سے متعلق معلومات غور سے دیکھیں ، تو زیادہ تر اخباروں میں مجرم کے نام کا ذکر ہی نہیں ۔ظاہر جعفر جس نے نور کو اس بے رحمی سے قتل کیا ، اس کا نام یا تو ہے ہی نہیں یا پھر سرسری سے ذکر کے ساتھ  “بزنس مین کا بیٹا ” آیا ہے ۔ اس پورے کیس کی تحریروں میں بھی نور اکیلی تھی ۔ ظاہر کا ذکر بہت کم ملا ۔ جب بھی ملی ، نور ہی ملی ۔

RELATED STORIES

“تھپڑ” فلم میں امرتا کے اپنوں نے ہی اس کو تھپڑ پڑنے کے بعد کہا “باہر آؤ لوگ کیا سوچیں گے “۔ میری والدہ کے نیلوں سے بھرے پر چہرے پر کہا گیا کہ لپسٹک لگا کر باہر آؤ ، لوگ کیا کہیں گے ۔ لیکن نور ۔۔۔۔ نور تو چلی گئی ، اور لوگوں نے بہت کچھ سوچ بھی لیا ، کہہ بھی دیا ۔ اس سب کہنے سننے میں ، نور اکیلی تھی ۔

 اگر کوئی نہیں تھا ، تو وہ ظاہر جعفر تھا ۔ اگر کوئی سوال نہیں اُٹھا ، تو ظاہر پر نہیں اُٹھا ۔ ظاہر سے کسی نے نہیں پوچھا کہ اس نے یہ سب کیوں کیا ۔ کسی نے نہیں پوچھا کے ظاہر نے نور کو گھر میں بند کیوں کیا تھا ۔ ظاہر سے کسی نے نہیں پوچھا کہ وہ لڑکی کے ساتھ کیا کر رہا تھا ۔ اگر پوچھا سب نے تو بس اک سوال  ۔۔۔۔۔۔ کیا نور ظاہر کیساتھ اکیلی تھی؟ 

ایک عورت ہوتے ہوئے میں نے کبھی اتنا اکیلا محسوس نہیں کیا جتنا اب کیا ہے۔ امرتا کا تھپڑ کے بعد اکیلا کھڑا رہنا، میری ماں کا مار کھانے کے بعد سب کا خاموشی سے سامنا کرنا، اور نور کا آخری لمحوں میں اتنا بےبس ہونا، مجھے بلکل اکیلا کر گیا ہے۔ میرا یہ یقین پختہ ہوگیا ہے کہ میرے ساتھ کچھ بھی ہوا، میری زندگی میں کوئی بھی مشکل آئی تو میں اکیلی کھڑی ہونگی۔ اور میں جو کچھ بھی کہوں گی، ہر بات کا حرف آخر یہ سماج متعین کرے گا۔ اور میں اکیلی ہونگی!

میری بہنوں، سہیلیوں، مائیں اور دنیا بھر کی عورتوں! یہ تمہاری آزادی اور حق کی جنگ ہے اور اسے تم نے اکیلے ہی لڑنا ہے!