اخبار کسی بھی گھر میں ایک کٹرعقیدے کی طرح ہوتا ہے کسی دن اگر معمول سے ہٹ کر باقاعدگی سے آنے والے اخبار کی جگہ ہاکر کوئی دوسرا اخبار پھینک جائے تو تمام دن طبیعت مکدر رہتی ہے۔ ہمارے گھر میں بھی اردو اخبار کے ساتھ کچھ ایسا ہی معاملہ تھا اور اس زمانے میں دو ہی اخبار بڑے سمجھے جاتے تھے۔ ہمسایہ ملک افغانستان اور وہاں بے امنی کی اماوس  کی رات سے پہلا تعارف اخبارات سے ہی ہوا۔ ایک مرتبہ ہاکر غلطی سے دوسرا اخبار پھینک گیا جس کی پیشانی پر ‘افغان باقی کہسار باقی الحکم للہ الملک للہ’ تحریر تھا اور ساتھ میں سعودی اسامہ بن لادن کی انگلی اٹھائے تصویر تھی بعد میں پتا چلا کہ نہ اسامہ افغانی تھا اور جو انگلی اٹھائی ہوئی تھی وہ دراصل دنیا بالخصوص سادہ لوح مسلمانوں کو نچانے کے لئے تھی۔ اگرچہ وزیراعظم صاحب تو اس دہشتگرد کے لئے اب بھی ہمدردی کا جذبہ رکھتے ہیں اورکچھ وزرا بھی اس حوالے سے اپنے نیک خیالات کا اظہار کر چکے ہیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاید ریاست آگے جانے کے بجائے الٹے قدم چلنا شروع ہو گئی ہے۔ غضب ہے کہ 2021 میں بھی ہم ایسی الجھن کا شکار ہیں۔ خیر بات ہو رہی تھی افغانستان کی اسی پر واپس چلتے ہیں۔ 

یہ بتانے کی شاید ضرورت نہیں کہ کس طرح ہاتھوں سے لگائے کانٹے ہمیں پلکوں سے چننے پڑے تھے اور کیسے ہم دو تین دہائیوں تک افغانستان کے اندر اپنے ایڈوینچر کا مزہ چکھتے رہے۔ اب پھر ہم دیکھ رہے ہیں کہ افغانستان کے اندر حالات نئی کروٹ لے رہے ہیں پاکستان میں بھی اس حوالے سے بے چینی ہے اور عوام کے اندر وہی پرانی کنفیوژن۔ طالبان اچھے ہیں یا نہیں، پاکستان کا مفاد کس میں ہے وغیرہ وغیرہ۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ پورا ملک ہی افغان امور کا ماہر بن چکا ہے چینلز پر بھی ادھ پکے ادھ کچے تجزیوں کے ساتھ ہر کسی نے اپنی اپنی دکان سجائی ہوئی ہے جنہوں نے کبھی کوئٹہ تک کا سفر نہیں کیا وہ اسپن بولدک پر ہونے طالبان قبضے پر خیال کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔ پاکستان نے اپنی ریستی پالیسی کا بھی کھلم کھلا اظہار کر دیا ہوا ہے وہ یہ کہ پاکستان افغانستان کے اندر کسی بھی گروپ کا حمایتی یا مددگار نہیں ہے لیکن شاید دنیا اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ یہاں بھی ہماری پالیسی کچھ کنفیوژن کا شکار نظر آ رہی ہے ہم افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اپنے کردار کی اہمیت بھی جتاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ افغان طالبان پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں اور اب جب طالبان کو افغانستان میں اپنی فتح واضح نظر آ رہی ہے تو وہ کیوں مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔ پچھلے دنوں افغانستان پر اسلام آباد میں ایک کانفرنس بھی ہونے والی تھی جو چند وجوہات کی بنا پر عید کے بعد منعقد کی جائے گی اس میں میں افغانستان کے گروپس اور حکومت کس تو بلایا گیا مگر طاللبان کے نمایندے کو نہیں اس سے یہ سوال تو بنتا ہی ہے کظکیا طالبان کا موقف پاکستان نے میز پر رکھنا تھا؟

افغانستان پر ہماری پالیسی ایسا لگ رہا ہے کہ بہت سے مفروضوں پر قائم ہے جو کہ بذات خود ایک خطرناک بات ہے کیوں کہ یہ طالبان 90 کی دہائی والے طالبان نہیں ہیں اور پاکستان میں بھی پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔ وقت کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کی ریاست اپنے تشخص کو واضح کرے اپنے اہداف کا تعین کرے اور ان اہداف سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل کی پیش بندی کرے کیونکہ طالبان کی جانب سے یہ کہہ تو دیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن کیا افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے پر یہاں پاکستان میں مذہبی شدت پسندوں پر اسکا کوئی اثر نہیں پڑے گا؟ کیا ہمارے پشتون علاقوں میں جنم لیے جانے والے نئے زمینی حقائق کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے؟ سوالات کی ایک لمبی فہرست ہے اور ان میں سے کئی کو تو پوچھنے سے پہلے بھی ہزار دفعہ سوچنا پڑے۔  لیکن آخر میں ایک بات تو کہی جا ہی سکتی ہے کہ ہماری حکومت جو کبھی اس ملک میں قائم سیاسی نظام پر ہی سوال اٹھاتی رہتی ہے یا اسے کبھی ترکی تو کبھی چین کا ماڈل اچھا لگنے لگتا ہے مزید برآں ریاست مدینہ کو سیاسی دکان چمکانے کے لئے استعمال کرنے والوں کے ذہنی ہیجان اور فکری خلجان کے دور میں افغانستان کی بدلتی صورتحال پر واقعی گھبرانے کی ضرورت ہے۔

RELATED STORIES