اللہ کا شکر ہے اس برس بھی ہم نے روایت کی پاسداری کرتے ہوئے عید کے چاند کو ایک بار پھر غیر متنازعہ بننے سے بچا لیا۔ ‘چن’ چڑھانے میں ویسے بھی ہمیں ملکہ حاصل ہے اس لئے سب سے پہلے پشاور والے پوپلزئی صاحب نے رویت ہلال کمیٹی کے اعلان سے قبل ہی چاند کی نوید سنا دی دوسری جانب کیونکہ نئے چئیرمین صاحب نام میں بھی آزاد واقع ہوئے ہیں تو اس بار کی رویت کا اعلان کرنے میں بھی وہ آزاد خیال ہی رہے بھلا ہو شاید کسی نے یاد کروایا کہ حضرت سحری کا وقت ہوا چاہتا ہے بتا دیں کہ سویاں پکانی ہیں یا سحری کا پراٹھا تو رات گئے رویت ہلال کمیٹی بھی آسمان سے چاند توڑ کر لے آئی اور  قوم کے قدموں میں نچھاور  کر دیا بجائے شکرگزار ہونے کے یار لوگ الٹا چاند ہونے نہ ہونے پر بحث کر نے لگ گئے بڑی ہی نا شکری قوم ہے بھئی کبھی اسے ‘تبدیلی’ ہضم نہیں ہوتی تو کبھی پانی سے چلنے والی گاڑی جیسے سائنسی انقلاب کو رد کر دیتی ہے۔ سائنس سے ویسے بھی ہمیں کو پرخاش ہے کیونکہ برصغیر میں جب لاؤڈ اسپیکر  نیا نیا آیا تو اس بیچارے پر بھی حرام ہونے کے فتوے لگ گئے ٹی وی تصویر وغیرہ وغیرہ سے مخاصمت کی کہانیاں بھی کوئی زیادہ پرانی نہیں۔

خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی واپس آتے ہیں بےچارے چاند کی درگت بننے کے واقعہ پر جب یہ سارا معاملہ چل ہی رہا تھا تو اسی  اثناء میں ایک عدد آڈیو لیک بھی سامنے آ گئی جس میں ایک ممبر رویت ہلال کمیٹی کچھ اور ہی کہانی سنا رہے تھے اگرچہ ‘سافٹ وئیر’ اپڈیٹ ہونے کے بعد انکی وضاحت بھی سامنے آ گئی تھی۔ اور تو اور کیونکہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری جیسوں سے پاک ہو چکی تھی اس لئے سائنس کی حقیقتوں کو لہرا لہرا کر کوئی چیلنج کرنے والا بھی موجود نہیں تھا لیکن وزارت اطلاعات میں ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اپنے دور وزارت میں بنائی ایپ کے زریعے چاند کے حوالے سے بیان جاری کر دیا لیکن کیونکہ ہر کوئی اپنا اپنا چاند لے کر پھر رہا تھا تو انکی سائنسی دلیل کو کسی نے کوئی خاص گھاس نہیں ڈالی۔ قصہ مختصر یہ عید میٹھی ہونے کے ساتھ ساتھ چٹخارے دار بھی رہی کیونکہ عید کے دن ہر گھر کی محفل کا گرما گرم موضوع گفتگو ‘چاند’ ہی تھا سوشل میڈیا اور واٹس ایپ وغیرہ پر بھی  کوئی سائنسدان تھا کوئی ماہرفلکیات اور کوئی دینی عالم کی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔

مسئلہ بڑا سادہ سا ہے کہ کیا چاند کی رویت ایک خالص دینی مسئلہ ہے یا سائنسی؟ کیا اس کا کوئی درمیانی راستہ نکالا جا سکتا ہے جس کے تحت ملک اس افراتفری اور بدتمیزی کا شکار نہ ہو۔ اگر نظر ڈالی جائے تو مختلف اسلامی ممالک اس مسئلے کے حل کے لئے مختلف حکمت عملی اختیار کرتے ہیں ملائشیا،  ترکی مصر اور دیگر مسلم ممالک نے اپنا اپنا طریقہ کار بنا رکھا ہے کوئی خالص سائنسی بنیادوں پر رویت ہلال کرتا ہے تو کوئی سائنس اور انسانی آنکھ سے دیکھنے کو ملا کر ہم بھی دوسرے طریقہ پر ہیں لیکن بات کچھ بنتی نظر نہیں آ رہی اور اس بار کی عید پر تو معاملات اور ہی بگاڑ کی جانب چل پڑے تھے لیکن یہاں جہاں آپ نے سائنس کی بات کی نہیں وہاں ہمارے لوگوں کا مذہب خطرے میں پڑا نہیں۔ جہاں سائنس مذہب کی مددگار ثابت ہو رہی ہو تو پھر اس پر ہی یہ معاملہ کیوں نہیں چھوڑ دیا جاتا۔ آخر دیگر دینی معاملات بھی تو وقت کے ساتھ ساتھ سائنسی بنیادوں پر حل کئیے جا ہی رہے ہیں اور ماضی میں چھوڑے گئے بھی ہیں۔

RELATED STORIES

افسوس کا مقام ہے کہ آج جب سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ دنیا تو چھوڑ مریخ کے دو چاندوں کے بھی طلوع اور غروب کا وقت بتا دے تو ہم ایک خاندان میں دو دو عیدیں منا رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کے علما اور فقہا اور سائنسدانوں کی ایک کمیٹی بنا کر اس مسئلہ کو ایک ہی دفعہ کیوں نہیں حل کر لیا جاتا اور اس میں پشاور کے مفتی پوپلزئی صاحب کو بھی ہونا چاہئے تاکہ تمام اختلافی آراء کو ایک جگہ جمع کر کے ایک قومی اتفاق کی فضا بنا دی جائے یہ لوگ چاہیں تو دیگر مسلم ممالک سے رابطے کر کے انکے طریقہ کار پر رہنمائی بھی لے سکتے ہیں۔ قوم جو ایک انتشار اور ہیجان میں مبتلا رہتی ہے اور  اس قسم کی باتیں سننے میں آتی ہیں کہ جی روزہ تو قضا ہو گیا یا دیکھا آج تو چاند دوسری کا لگ رہا ہےسے یہ میٹھی عیدیں کھٹی کرنے کی کیا تک ہے۔