میرے خیال سے دو مہینے  ہو گئے ہیں ۔ میں روز جاگتی ہوں ،روز ایک عورت سے متعلق دل دہلا دینے والی خبر ہوتی ہے  ۔ میں اس خبر کے خوف میں رہتی ہوں ، واویلا مچتا ہے  ، بحث ہوتی ہے ، گرفتاری ہوتی ہے ، اور  اس کے ساتھ ہی سارا الزام عورت پر ہی  لگ جاتا ہے  ۔ اس پوری روٹین میں ایک دن بھی فرق نہیں  آیا ۔ میں اس پورے سلسلے میں ایک ہی چیز پر حیران ہوتی ہوں اور وہ ہے مرد کا چیخنا چلانا ۔  مطلب تشدد بھی عورت پر ہوا ، قتل بھی عورت ہوئی ، عزت بھی  عورت  کی لٹی ، لیکن واویلا صرف مرد مچا رہے ہوتے ہیں ۔ عورتوں کو ایک عورت کے بارے میں ہی بات کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ وہ اجازت بھی شاید مرد ہی دینا چاہتے ہیں ۔ مرد کی چونکہ عزت کے خلاف ہے اپنی غلطی ماننا تو یہ قدرتی بات ہے کہ وہ روئے گا ، چلائے  گا ، اور عجیب وغریب دلیلیں بھی دے گا ۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے ، مرد کی برداشت کے 5 مرحلے ہیں۔ آپ چاہیں تو اس میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں ۔

پہلا مرحلہ ہوتا ہے جہاں مرد کہتے ہیں “دنیا میں پاکستان سے زیادہ عورت کی عزت کہیں نہیں ہوتی “۔ یہ ہمارے وزیرِ اعظم بھی کہتے ہیں ۔ جب ہم عورتیں یہ کہتی ہیں کہ کہاں کی عزت جب روز کسی عورت کی عزت لٹتی ہے یا عورت کا قتل ہوتا ہے تو  اس پر مرد کہتے ہیں ” ہم  اتنی عزت کرتے ہیں آپ کی  ۔ تندور پر جو قطار بنی ہوتی ہے ، ادھر ہم عورتوں کو پہلے روٹی دیتے ہیں “۔ یا پھر” جب عورت  اے ٹی ایم پر جاتی ہے  تو ہم اسے پہلے پیسے لینے دیتے ہیں ” اتنی تو  عزت دیتے ہیں ، تو  کیا ہوا اگر تھوڑا مار لیا یا قتل کر دیا؟ اور کیا چاہتی ہیں آپ، اور کیا حقوق  چاہئیں ہیں آپ کو ؟

پھر مرد آتا ہے دوسرے مرحلے کی جانب ۔ اس میں وہ کہتا ہے پوری دنیا کے مقابلے میں پاکستانی عورت پاکستان میں محفوظ ہے ۔ جب عورتیں کہتی ہیں کہ کہاں محفوظ ہیں ؟ کبھی عورت کو کوئی ہاتھ مار جاتا ہے ، کبھی عورت پر 400 مرد حملہ کر دیتے ہیں ، کبھی عورت کے پیچھے گاڑی  لگ جاتی ہے ، کہاں محفوظ ہے؟ اس پر مرد حضرات کا جواب ہوتا ہے ” تو نہ جائیں باہر ” یا پھر وہ کہتے ہیں “ہاں  تو کچھ کیا  ہوگا ، کپڑے ٹھیک نہیں ہوں گے ، یہ نہیں ہوگا ، وہ نہیں ہوگا ” ۔ مرد اِس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتے کہ عورت میں کچھ نہیں ہوتا ،ساری غلاظت ان کے ذہن میں ہوتی ہے ۔ سارا کا سارا  گند ان کے دماغ میں ہروقت رچا بسا رہتا ہے  جس کی وجہ سے نہ وہ سیدھا  سوچ پاتے ہیں اور نہ ہی کچھ سیدھا کر پاتے ہیں ۔

RELATED STORIES

پھر آتا ہے تیسرا مر حلہ  جس میں وہ کہتے ہیں کہ عورت نے خود کروایا ہے تاکہ وہ ملک سے باہر جا سکے ۔ یا پھر انڈیا نے فلاں فلاں کو پیسے دے کر یہ کروایا ہے تاکہ پاکستان کو بدنام کیا جا سکے ۔اور اس مرحلے پر مرد کی آواز کافی اونچی ہو جاتی ہے ، صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہوتا ہے ، وہ سارا غصہ جو ان کو عورت کے “ہونے ” پر ہے، وہ اندر کھولنے لگتا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ “مرد ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہوتا ہے” جدھر اسے ہارٹ اٹیک ہو سکتا ہے یا پھر گردے بھی فیل ہو  سکتے ہیں کیونکہ خدا نخواستہ وہ کیسے مان لے کہ غلطی مردوں کی ہے ؟

چوتھا مرحلہ وہ ہوتا ہے جس میں وہ آپ کو یاد کرواتے ہیں کہ آپ کے ابو آپ کا بھائی یا آپ کا خاوند بھی مرد ہے ۔ صبر کا زہر پی کر  وہ آپ کو  کہتے ہیں کہ “اگر مرد اتنا برا لگتا ہے تو ابو کو بھی مار دو ” خدا کی قسم ، اس نکتے پر میری  اپنی ہنسی نکل جاتی ہے کہ آخر یہ مرد کیوں اتنا مجبور ہے  اپنی انا کےہاتھوں، آخر مسئلہ کیا ہے؟

پھر آتا ہے پانچواں اور آخری مرحلہ جس میں مرد کہتا ہے  ” میری ہو گئی ہے بس کاٹ دے میری کوئی نس “۔ اس مرحلے میں اسے پہلے دو مرحلے جس میں وہ عورت کے محفوظ ہونے اور عورت کو عزت دینے کے نعرے کو بھول جاتا ہے ۔ اس کے اندر کا وہی درندہ جاگ جاتا ہے جو نور کے قاتل ظاہر میں ہے ، ان 400 مردوں میں ہے جو عورت پر جھپٹ پڑتے ہیں ، اوران  مولویوں میں ہے جو مدرسوں میں بچوں کو بھی  نہیں چھوڑتے ۔ مرد آپ کو ایسی گالیاں دے گا کہ آپ کو یا تو سمجھ نہیں آئے گی کہ یہ کہا کیا  ہے  یا پھر آپ صدمے میں چلی جائیں گی یہ زبان ہے عورت کو “عزت ” دینے والے کی ۔ ان 5 مرحلوں میں آپ عورت ہوتے ہوئے محسوس  کریں گی کہ  مرد خاموش نہیں ہوگا ، ایک سیکینڈ کے لیے بھی منہ بند نہیں کرے گا ۔ وہ آپ کو بات کرنے ہی نہیں دے گا ۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے خدا نخواستہ سن لیا ، تو وہ سوچنے لگ جائے گا ۔ اگر اس نے سوچ لیا ، تو شاید اس کو عورت کی بات ٹھیک لگنے لگے گی ۔   اس ٹھیک لگنے پراسے شاید  شرم بھی آ جائے ، اور شاید اسے معافی بھی مانگنی پڑے ۔ جیسے ہی معافی کا لفظ ذہن میں آئے گا مرد پھر سے  وہی درندہ بن جائے گا !

اس لیے میری بہنوں ! آپ کی جنگ جائز ہے ۔ آ پ کا بار بار آواز اٹھانا جائز ہے ۔  لیکن  یہ مت بھولیں کہ اگلے کے لیے غلطی ماننا ناجائز ہے !