مارچ 8 ، عورتوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے . دنیا بھر کی خواتین ، دین و مسلک سے بےنیاز ہو کر ، اک زنجیر کی طرح بندھ جاتی ہیں . اپنے حق کے لیے آواز اُٹھاتی ہیں . اپنے وجود کو اک ماں ، بہن ، ِبیِوی ، اور بیٹی کے روپ سے نکال کر ، صرف ایک انسان ، صرف ایک عورت ہو کر اپنے لیے وہی حق مانگتی ہیں ، جو مردوں کے پاس ہیں . بنیادی انسانی حقوق جن کو اِس سماج نے عورتوں کے لیے لاحاصل بنا دیا . اِس لاحاصل کو حاصل کرنے پر جب عورتوں نے آواز اٹھانی شروع کی ، اور خصوصی طور پر پاکستان میں ، تو مردوں پر جیسے قیامت ہی بیت گئی . قیامت سے پہلے قیامت سی ہوگئی۔

پورےسال میں ایک دن اگرعورت نے اپنےحق کےلیےآوازاٹھائی تواٹھائی کیوں؟آخرآج ہی کیوں ؟ آخر 8 مارچ کو ہی کیوں ؟ آخر اتنی ساری عورتیں کیوں ؟ مردوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے آخر عورت کو کہا ہی کیا ہے جو عورت کو باہر آ کر با آواز بلند کہنا پڑا کے اُنہیں بنیادی حقوق دئیے جائیں ؟ ایسے بہت سے سوال مردوں كے ذہن میں ہر سال 8 مارچ کو آتے ہیں . ِپھر اُنہیں غصہ آتا ہے . ِپھر وہ غصے میں آ کر ​کہتے ہیں ​“ہم اپنی عورتوں کو اتنی عزت دیتے ​ہیں” اور اسی ​جملے کے اختتام پر مرد حضرات ماں بہن کی گالی بھی شامل کر دیتے ہیں . یہ لیں ، یہ ہے عورت کی عزت کی بریانی بنانے کی ترکیب . اِس ترکیب میں کچھ اور ​اجزاء بھی شامل کیے جا سکتے ہیں جیسے عورت کو مارنا ، اس پر ​تیزاب پھینکنا، اس پر جنسی تشدد کرنا ، اس کو بیٹی پیدا کرنے پر طلاق دینا ، اس کو مزید بچے پیدا نہ کرنے پر گھر سے نکال دینا، اس کو سڑک پر چلتے ہوئے ہاتھ مار جانا ، اس کے پیچھے گاڑی لگا کر اس کو احساس دلانا کے یہ زمین صرف مرد کے لیے ہے، اور مزید بہت سے اجزاء حسب ذائقہ ڈالے جا سکتے ہیں۔

اسی شور اور ​واویلے کے بیچ میں عورتیں 8 مارچ کو ملک بھر میں پر امن احتجاج کرتیں ہیں . اور ہر عورت اپنی زندگی کے حساب سے اپنا حق مانگتی ہے. میں ہر سال ان ​پلے کارڈز کو بہت غور سے پڑھتی ہوں. تعلیم کے حق سے لے کر كھانا خود گرم کر لو تک ، مختلف ​مطالبات ان پلےکارڈز کے ذریعے اجاگر کیے جاتے ہیں . کچھ ​مطالبات ایسے ہیں جن سے میں ذاتی طور پر بھی ​اتفاق کرتی ہوں کیونکہ میں بھی ایک عورت ہوتے ہوئے بہت مشکل مرحلوں سے گزری ہوں . عورت مارچ میں کچھ ایسے ​پلےکارڈز بھی تھے جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ ​پلےکارڈ لانے والی لڑکی کس قدر بےبسی کا شکار ہو کر باہر نکلی ہے. اک پلےکارڈ پر ​“میں خود ایک گھر بناؤں گی جس میں سے تم مجھے نکال نہ سکو” لکھا تھا، مجھے لگا جیسے کسی بچی نے میرے جذبات کی آخر کار ترجمانی کر دی. وہ چھت ​فراہم کرنے والا جب بے گھر کرتا ہے ، تو یہ زمین عورت پر اور بھی تنگ ہوجاتی ہے  لیکن وہ عورت ہی کیا جو ہار جائے!

RELATED STORIES

ایسے بہت سے ​مطالبات دیکھتے ہوئے ایک ​مطالبے پر نظر پڑی جس میں لکھا تھا ​“میرا جسم میری ​مرضی” یہ بے ضرر سا ​پلےکارڈ دیکھ کر خیال یہی آیا کے ہاں ، خدا نے یہ جسم مجھے دیا ہے تو مرضی بھی میری ہی بنتی ہے. کوئی بھی شعور رکھنے والا انسان اِس سے متفق ہی ہو گا لیکن جنہیں شعور حاصل نہیں، وہ ہکا بکا رہ گئے  اور ہکا بکا رہنے والے تھے بھی مرد ان کا ردعمل ویسا ہی تھا جیسے میرا حال ہوا تھا جب میرے والدین نے مجھے بتایا تھا کہ میٹرک کے بعد ابھی اور پڑھنا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک آگ سی لگ گئی، ان ​بے شعور لوگوں کا کہنا تھا کے ٹھیک ہے جسم عورت کا ہے ، لیکن اب کیا اِس جسم کے ساتھ کچھ بھی کرنےکےلیےہمیں اِجاَزت لینی ہوگی؟ کیاعورت کےجسم کوبھرے بازارمیں ایک دو سیکنڈ کی لذت حاصل کرنے کے لیے ہم مرد بغیر پوچھے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے؟ کیا عورت کے جسم کو ہم اپنا غصہ ​نکالنے کے لیے استعمال نہیں کر سکتے ؟ کیا اب جنسی عمل کے لیے ہمیں عورت سے اِجاَزت لینی ہوگی ؟ اب کیا ہم عورت کی مرضی کے خلاف اس کے جسم پر جنسی تشدد بھی نہیں کر سکتے ؟ کیا اب ہمیں عورت کو اپنی مرضی سے پہننے اور اوڑھنے کو برداشت کرنا ہوگا؟ مزے کی بات ہے کے ان میں زیادہ وہ لوگ تھے جو ​“میرا جسم میری مرضی” کو سمجھ رہے تھے کے ​“اچھا اب عورتیں ننگی ہو کر باہر نکلیں گئیں ؟” ارے صاحب عورت کو کبھی کپڑے کے ساتھ تولنا چھوڑ بھی دیا کریں۔

اگر عورت نے ​واقعی اپنے جسم کو آپ سے محفوظ کرنے کا ​نعرہ بلند کیا ہے تو کیا غلط کیا ؟ اگر عورت نے سڑک پر بے خوف و خطر چلنے کا مطالبہ کیا تو کیا غلط کیا ؟ اگر عورت نے جنسی ہراسگی کے خلاف آواز اٹھائی تو کیا غلط کیا ؟ اگر عورت نے اپنے جسم کو درندوں کی طرح اکھاڑ پچھاڑ کے خلاف آواز اٹھائی تو کیا غلط کیا ؟ صاحب ، عورت کے جسم کی آزادی صرف دو گز کپڑے سے منسلک نہیں ہے . اس کے جسم کی آزادی اس کا باہر بے خوف و خطر پھرنا ہے . اس کے جسم کی آزادی اس کا اپنے گھر میں بغیر جسمانی تشدد کے رہنا ہے . اس کے جسم کی آزادی اس کا اپنا خیال کرنا ہے . اس کے جسم کی آزادی اس کا اپنی مرضی کا ​اوڑھنا پہننا ہے . اور یہ آزادی وہ سال کے ایک دن میں اگر مانگ ہی لیتی ہے ، تو ایسا ​واویلا ؟ اس کی اِس مرضی کو جرم کی شکل نہ دیں۔ اسے سنے ، اسے سمجھیں اور اپنی ذات کے خول سے باہر نکلیں… وہ جیسے احمد ندیم قاسمی نے کہا ہے؛

کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہنا جرم ہے سانس لینے کی تو آزادی میسر ہے مگر زندہ رہنے کیلئے انسان کو کچھ اور بھی درکار ہے اور اس کچھ اور بھی کا تذکرہ بھی جرم ہے۔