باہر جانے کا کس  کو شوق نہیں ،  گھر  سے باہر نہیں ملک سے باہر جانے کا ۔ ہم میں سے بیشتر لوگ باہر سیر و تفریح کرنے جاتے ہیں تا کہ زندگی کے تھکا دینے والے سلسلے سے کچھ دیر تو چھٹکارا ملے ۔ کچھ لوگ باہر جا کے صرف لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ وہ برج خلیفہ کی سوئی کو ہاتھ لگا کر آئے ہیں  اور مونا لیزا کی تصویر میں کوئی خاص بات نہیں  ، اس سے بہتر تصویر ہم خود بنا لیں ۔ اور کچھ لوگوں کی ویسے ہی بس ہو گئی ہے ملک میں تو وہ اپنی زندگی کا سب کچھ بیچ کر  ملک ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتے ہیں ، یہ سوچتے ہوئے کہ اس  ملک میں ملی ہوئی عزت سے بہتر باہر کی بے عزتی ہے  ، افسوس تو نہیں ہوتا نہ کہ اپنے بے عزتی کر رہے ہیں !

دوسرے ملکوں میں بات یہیں ختم ہوجاتی ہے کہ باہر گئے اور واپس آ گئے ۔ لیکن پاکستان میں باہر جانے کو ایک خاص ہی مقام حاصل ہے ۔ ملک سے باہر جانے کو سیاسی نظر سے دیکھیں تو شاعر حضرات جو اپنی انقلابی شاعری کے لیے مشہور تھے ، انہیں بھی ملک چھوڑنا پڑا ۔ ایک ان سے ملک چھڑوایا اور پھر ان کو غدار کا سرٹیفکیٹ بھی دے دیا ۔اور جب وہ واپس نہیں آئے تو سب نے کہا ” تھا ہی غدار ، باہر صحیح عیاشی کرتا رہا ہے، اس کے تو مزے ہوگئے” جن سیاست دانوں سے سب کی نہ بنی ان کو بھی ڈیل میں باہر کا ملک دے دیا  کہ چلیں آپ اب تھوڑا آرام  کر لیں، ملک کا بیڑا غرق اب ہم کریں گے۔ ہمیں بھی تو موقع دیں نا۔  سیاسی طور پر اس دن حد ہی ہو گئی جب پاکستان کے ایک وزیرِ اعظم کو کہا گیا کہ لوگ تنگ آ کر ملک چھوڑ رہے ہیں ، تو انہوں نے جواب میں کہا ” ہاں تو چلے جائیں ، ان کو روک بھی کون رہا ہے ” خود بتائیں اس سے زیادہ خیال رکھنے واالی حکومت آپ کو کہیں اور مل سکتی ہے ؟  نہ آپ کو کوئی روک رہا ہے، نہ کوئی ٹوک رہا ہے، جہاں مرضی جائیں۔

لیکن یہ باہر جانا کچھ عجیب شکل اختیار کر چکا ہے ۔ اب لوگ کہتے ہیں

RELATED STORIES

 “اس نے اپنے آپ کو خود مار پڑوائی  تاکہ وہ ملک سے باہر جا سکے ” یہ الزام جن لوگوں پر لگ رہا ہے ان میں صحافی ، انسانی حقوق کے علمبردار،اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا ہر شخص شامل ہے ۔ وہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ، ظالم ان کی آواز بند کرتے ہیں۔ کبھی ان کو ذہنی اذیت  دے کر تو کبھی جسمانی ۔ کچھ سہہ جاتے ہیں اور کچھ کو واقعی ملک چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔  جو ملک چھوڑ جاتے ہیں ، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے “خود مار پڑوائی تھی اپنے آپ کو تاکہ گوروں سے ہمدردی حاصل کر کے ملک چھوڑ سکیں” ۔

 15 سال کی ملالہ کو  جب گولی لگی  اور انہیں باہر لے جایا گیا  تو پاکستان میں سوال  ہی کچھ اور تھے ۔ “ملالہ کو جہاں  گولی لگی وہاں سوراخ کیو ں نہیں ہے؟  سر میں گولی لگنے سے کون بچ سکتا ہے ؟ کہیں خود گولی  تو نہیں لگوائی؟ اور آخر میں پھر وہی بات کہی گئی “باہر جانے کا بہانہ تھا ، گولی لگی ہی نہیں”

اب کوئی سچ بولنے والا صحافی ہو یا ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا انسان ، اس کو کوئی گھر میں گھس کر مارے ، یا گھر کے باہر سے اٹھا کر غائب کر دے ، اس کا اخبار بند کروا دے ، اس کے گھر والوں کو کوئی دھمکیاں دے جائے ، ہر چیز پر ہماری محب ِوطن قوم کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے “خود کروایا ہے تاکہ ملک سے باہر جا سکے ” ۔ بات صرف یہاں نہیں رکتی، کوئی صحافی زخمی ہو تو محبِ وطن لوگ پوچھتے ہیں  “یہ زیادہ زخمی کیوں نہیں ہے؟ ایسے کون زخمی ہوتا ہے ؟ خود کروایا ہوگا”  کسی کا خون زیادہ نہ نظر آئے تو تب بھی یہی کہا جاتا ہے “یہ کیسا تشدد ہے جس میں خون کا دریا نہیں بہا؟ لگتا  ہے خود کروایا ہے تاکہ ملک سے باہر جا سکے ” کسی صحافی کو کچھ گھنٹوں کے لیے غائب کرنے کے بعد جب واپس کیا جاتا ہے تو تب بھی یہی کہا جاتا ہے “خود اٹھوایا ہوگا ورنہ زندہ کیسے واپس چھوڑ گئے ؟ ضرور ملک سے باہر جانا ہے” ارے ہمارے محبِ وطن لوگ تو کسی عورت کی عصمت دری ہو اور اس کو باہر کے ملک میں  پناہ مل جائے تو اس کو بھی یہی کہتے ہیں” خود کروایا ہوگا اپنا ریپ تا کہ ملک چھوڑ سکے”

پہلے ہم کہتے تھے جو کروا رہا ہے بھارت کروا رہا ہے ، اب ہم کہتے ہیں جو کروا رہے ہیں خود کروا رہے ہیں ۔ میرا سوال یہ ہے کہ آخر کتنے صحافی اس ملک سے باہر گئے ؟ میرا ان محبِ وطن لوگوں سے سوال ہے کہ جب کوئی صحافی یا ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والا انسان مرے تو کیا تب ہی  آپ کو ان حادثوں پر یقین ہوگا ؟ کیا اس کی لاش کے ٹکڑے ملیں گے تو تب ہی آپ ظالم کے خلاف آواز اٹھائیں گے ؟  اے محبِ وطن انسان ! ملک سے محبت کے لیے کیا موت ضروری ہے ؟