مجھے یاد پڑتا ہے کہ اکثر تحریک پاکستان کا مضمون اسکولوں میں اساتذہ کچھ اس طرح شروع کروایا کرتے تھے کہ ‘تحریک پاکستان کی بنیاد اس دن پڑی جب برصغیر میں پہلا مسلمان آیا۔۔۔’ ویسے ہمارے اس خطے کے لوگ بھی عجیب ہیں وہ محمد بن قاسم سے تو اپنی تاریخ شروع کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں لیکن اپنے اس خطے کی قدیم تاریخ سے اپنے آپ کو پرے پرے رکھتے ہیں نہ جانے یہ شرم ہے یا ارادی عمل۔


ہم مسلمان ہیں اور اس پر ہمیں فخر ہے لیکن جس خطے میں ہم رہتے ہیں اس کی بنا پر ہمارا یہاں کی قدیم و جدید تاریخ سے بھی ایک رشتہ ہے اور جب تک ہم اس رشتے کی ملکیت نہیں لیتے اور اپنی آنے والی نسلوں کو نہیں پڑھائیں گے تب تک ہم کیسے اس کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے اور کہاں جا رہے ہیں۔ گندھارا تہذیب کا گہوارہ ہونے کے باوجود ہمارے بچے مغل بادشاہوں کے نام رٹ رہے ہوتے ہیں اعتراض اس پر نہیں ہے افسوس اس پر ہے کہ اس خطے کی تاریخ کو ایک خاص نظر سے دیکھنے اور ایک خاص رنگ میں رنگنے کی کوشش کی گئی ہے۔ راجہ پورس کا سکندر اعظم کے تصادم ہو یا بھگت سنگھ کا برطانوی استعمار کے خلاف اقدام۔ ہمیں تو فخر کرنا چاہئے کہ اس خطے میں رہنے والے استعماری قوتوں کے خلاف لڑنے میں، اپنے حق آزادی کو حاصل کرنے میں اس خطے کے باسی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔ تحریک پاکستان ایک حادثہ نہیں ہے بلکہ برصغیر کی جنگ آزادی میں ایک روشن مینار ہے یہ تاریخ کے تسلسل میں ایک واقعہ ہے ایک سوچا سمجھا ارادہ!! اس خطے کی جنگ آزادی کی تاریخ میں بھی ہماری ‘پک اینڈ چوز’ کی پالیسی رہی ہے اور ایک ایسا خطہ جو ہمیشہ اپنے اندر تنوعات کو جذب کر کے ایک نیا رنگ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا اسے ہم ایک خاص عینک چڑھا کر دیکھتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی ایسے ہی دولے شاہ کے چوہے بنانے پر مصر ہیں۔ قومیت ایک اچھی چیز ہے لیکن جب جارحانہ اور شدت پسند قومیت بزور بازو مسلط کرنے کی کوشش کی جائے گی تو حاصل جمع ملغوبہ ہی ہو گا۔


ابھی 23 مارچ کا دن گزرا اور یوم پاکستان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھگت سنگھ کی پھانسی کا دن بھی تھا لیکن اس کی بھی ہم نے ملکیت نہ لی حالانکہ بھگت سنگھ کو پھانسی لاہور میں ہی لگی تھی مزے کی بات یہ ہے کہ 23 مارچ کا دن ابتدائی برسوں میں یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا تھا کیونکہ 23 مارچ 1956کو پاکستان ایک جمہوریہ قرار پاتے ہوئے برطانوی عملداری سے مکمل چھٹکارا حاصل کر لیا تھا اور بھگت سنگھ بھی تاج برطانیہ سے مکمل آزادی کی جدوجہد کی علامت ہے۔

RELATED STORIES


بھگت سنگھ کو آپ مذہب کی عینک سے ہی کیوں دیکھتے ہیں یہ آزادی کی اس جنگ کا ایک سپاہی ہے جس نے اس خطے میں استعمار کو للکارا اور لاہور میں شادمان فوارہ چوک پر پھانسی چڑھ گیا لیکن ہم نے اس چوک کا نام اس آزادی کے ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کی کوشش کو بھی ایک مذہبی معاملہ بنا دیا۔ پاکستان اور بھارت میں امن کا راستہ بھی ہماری مشترکہ تاریخ سے ہو کر نکلتا ہے جب دونوں طرف ہم اپنے اختلافات کے بجائے مشترکات کو مقدم رکھیں گے جب دونوں طرف اس مشترکہ تاریخ پر فخر کیا جائے گا۔ آج لاہور پر ہی صرف نظر دوڑائیں تو ایک ستم ظریفی سامنے آتی ہی کہ سر گنگا رام کے کئے گئے کام سے فیض تو اٹھاتے ہیں لیکن اپنی تاریخ میں انہیں وہ جگہ دینے پر تیار نہیں جس کے وہ متقاضی ہیں۔ ہماری سائنس کی کتابوں میں جابر بن حیان اور ابن الہیشم کو تو پڑھایا جاتا ہے لیکن ماہر طبیعات سبرامنین چندراشیکھر کو نہیں جو لاہور میں پیدا ہوئے اور پھر علم طبیعات اور فلکیات میں ایسا نام پیدا کیا کہ خلا میں Chandra X Ray Observatory انکے نام سے منسوب ہے میں سوچتا ہوں کہ یہ آبزرویٹری جب خلا میں لاہور پر سے گزرتی ہو گی تو چندرا شیکھر بھی ضرور اپنی جائے پیدائش کو دیکھ کر مسکراتے ہوں گے ویسے ہی جیسے برصغیر کی آزادی کا ذکر ہوتا ہے اور اس میں لاہور کا نام آتا ہے تو بھگت سنگھ بھی مسکراتا ہو گا۔ یہ خطہ اپنی تاریخ میں بہت زرخیز ہے بس ضرورت اسکی ملکیت لینے کی ہے۔