‘!نہیں، عورت’
میری زندگی کا محدود تجربہ مجھے یہی بتاتا ہے کہ لفظ “نہیں” کہنا سب سے آسان کام ہے . دِل نہیں کر رہا ، میں نے نہیں جانا ، میں نے نہیں كھانا ، یہ نہیں ، وہ نہیں ، بس کہہ دیا نہ نہیں . بچہ جب بولنا سیکھتا ہے تو اماں ابا کے علاوہ “نو” فوراََ سیکھتا ہے . بچے پر تو پیار آتا ہی ہے لیکن یہی لفظ وقت گزرنے کے ساتھ اتنا تلخ ہوجائے گا اندازہ ہی نہیں ہو پاتا اور یہ تلخی صرف اِس سماج کی عورت ہی سمجھ سکتی ہے . عورت اپنی زندگی میں ہر رشتے سے اتنی بار نہیں سنتی ہے کہ اب مجھے لگتا ہے کہ اُردو لغت میں “نہیں” کی جگہ “عورت” کا لفظ بھی اِستعمال ہو سکتا ہے .
یہ کپڑے نہیں پہننے سے لے کر ایسے نہیں بیٹھنے تک ، یہ نہیں کا لفظ مسلسل اک تلوار بن کر عورت پر لٹکا رہتا ہے . لیکن اصل فرق اِس “نہیں” کا تب نظر آیا جب گھر کے مرد حضرات بغیر اِجازَت کے گھر سے باہر نکل جاتے جبکہ مجھے اپنے دماغ میں اک پُورا مضمون باندھ کر اپنی سہیلیوں سے ملنے کی اِجازَت لینی پڑتی، اور جواب کیا ہوتا ؟ نہیں . یقین جانئے ہم عورتیں اِس نہیں پر صرف حیران نہیں بلکہ پریشان بھی ہوتی ہیں . کیونکہ یہ”نہیں” ایک سیکنڈ بھی ضائع کئے بغیر منہ سے نکلتا ہے . ایسے جیسے ہمارے والدین کے ڈی-این-اے میں بیٹیوں کے لیے “نہیں” شامل ہے اور وہ کچھ اور کہہ ہی نہیں سکتے . ہم عورتیں اکثر والداین سے اِس “نہیں” کی وجہ پوچھتی بھی ہیں . کبھی والدہ کہہ دیتی ہیں “بیٹا آپ کے ابو کو اچھا نہیں لگتا” ، کبھی وہ کہتی ہیں “یہ وقت نہیں ہے جانے کا” ، کبھی وہ کہتی ہیں “کیا کرنا ہے جا کر ؟ ” ، کبھی وہ کہتی ہیں “ابھی اس دن تو گئی تھیں” جو کہ زیادہ تر 2 مہینے پہلے کی ملاقات ہوتی ہے ، اور کبھی ان کے پاس کوئی جواب ہی نہیں ہوتا . کوئی وجہ نہیں ہوتی . اور سب سے زیادہ خوبصورت وجہ اِس “نہیں” کی ہوتی ہے “بیٹا شادی کے بعد خاوند کے ساتھ جانا” . اِس وجہ پر تو میں بالکل ہونقوں کی طرح گھورتی ہی رہ جاتی ہوں کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ، کل ہے یا نہیں . اور آپ مجھے میرے خاوند کی اِجازَت کا انتظار کرنے کو کہہ رہی ہیں ؟
اور اگر باخدا اِجازت مل جائے، تو عورت کو اپنی ہی دوست کا پُورا شجرہ نسب بتانا پڑتا ہے . دوست کہاں رہتی ہے ، کتنے بہن بھائی ہیں ، وہ کیوں نہیں آ سکتی ؟ ، تم ہی کیوں جاتی ہو ہر بار ؟ ، اور کون جا رہا ہے ، اور کوئی کیوں نہیں جا رہا وغیرہ . بس گھر کتنے رقبے پر بنا ہے اور کتنی گاڑیاں ہیں جیسے سوال ہی رہ جاتے ہیں . ان تفصیلات کے ساتھ ساتھ ، یہ بھی بتانا لازم ہے کہ دوست کے گھر کتنی دیر میں پہنچو گی ، کتنے گھنٹے بیٹھو گی ، اور واپس کتنے بجے آؤ گی . یہ تفصیلات فراہم کرتے کرتے وہ عورت اک عجیب احساس جرم کا شکار ہوجاتی ہے . ایسے لگنے لگتا ہے کہ جیسے دوست سے ملنے نہیں بلکہ بہت بڑا گناہ کرنے جا رہی ہو . ملنا سہیلی سے ہی ہوتا ہے لیکن لگتا ہے کہ شاید کسی نامناسب انسان سے ملاقات کرنے جارہی ہیں .
جہاں مرد حضرات گھر میں محض اعلان کر کے روز ہی باہر نکل جاتے ہیں ، ہم خواتین ہفتے میں دوسری بار دوستوں سے ملنے کا ذکر کریں تو آگے سے جواب ملتا ہے “بیٹا آپ پِھر گھر سے باہر ہی رہیں . گھر کیوں آنا ہے ؟ ” . ہم لڑکیاں دِل ہی دِل میں دعا کرتی ہیں کے ملنے کا پروگرام ہی ختم ہوجائے . کوئی قدرتی آفت آ جائے یا ملک میں ایمرجنسی لگ جائے ، لیکن خدارا ! کوئی دوبارہ ملنے کا مت کہے !
ٹویٹر پر اِس موضوع پر بات ہوئی تو ایک صاحب نے کہا “آپ اچھی طرح سے پوچھیں تو کیوں نہیں جانے دیں گے والدین ؟ ” اِس سے زیادہ اور اچھی طرح اِجازَت کیسے مانگیں جب ہم اپنی دوستوں کا پُورا شجرہ نسب ہی بتا رہی ہیں ؟ اور کس طرح اِجازَت مانگیں جب ہم اپنے آنے اور جانے کا وقت بھی بتا رہی ہیں ؟ اور کس طرح اِجازَت مانگیں کے ہم ہفتے میں صرف ایک ہی بار نکل رہی ہیں ؟ اور کس طرح اِجازَت مانگیں کہ ہم اپنی ملاقاتوں کو بھی کم کرتی جا رہی ہیں کے کہیں والدین کو یہ نہ لگے کہ لڑکی ہاتھ سے نکل گئی ہے
ہنسی تو اس بات پر آتی ہے کہ اجازت کا طریقہ بتانے والے خود اجازت لیتے ہی نہیں۔ نہ وہ دنوں کی قید میں ہیں اور نہ ہی گھنٹوں کی قید میں۔ نہ ان کیلئے دن کی پابندی ہے نہ رات کی۔ نہ ان پر عزت کی قید ہے اور نہ ہی بے عزتی کی۔ اگر قید ہے تو وہ ہے سوچ کی، جو نہ بدلی ہے اور شاید نہ ہی بدلےگی۔ عورت کیلئے صرف ایک ہی چیز بدلتی ہے۔ اس کا گھر۔ لیکن اس گھر میں بھی “نہیں” کبھی نہیں بدلتا!