ویکسینیشن ، مرد اور عورت کا پردہ
ابھی ایک ہفتہ پہلے میری والدہ کو کورونا ویکیسنیشن کی دوسری خوراک لگی ۔ پہلی خوراک والے دن میں کافی گھبرائی ہوئی تھی کہ پتا نہیں کیسے ہوگی ، سینٹر پر کیا حال ہوگا ،لوگ کتنے ہونگے وغیرہ وغیرہ ۔ جب میں سینٹر پر پہنچی تو لوگوں کا جمِ غفیر نظر آیا ۔ زندگی میں پہلی بار اتنے لوگوں کو ٹیکہ لگوانے کی خوشی تھی ۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ کام شروع کیسے ہوگا ۔ اسی دوران میں نے کسی سے پوچھا جو کورونا سینٹر کے نمائندہ ہی تھے ۔ انہوں نے کہا آپ میرے ساتھ آ جائیں ۔ میں آپ کا کام کروا دیتا ہوں ۔ انہوں نے دس منٹ میں فارم جمع کروا کرآخری مرحلے تک کام کروا دیا ۔ میں نے پیسے دینے چاہے تو انہوں نے کہا “میں انسانیت کے ناتے کر رہا تھا، پیسے رکھئے” ۔ ساتھ ہی انہوں نے نمبر دیا کہ اگلی خوراک پر رابطہ کیجئے گا اورمیرا نمبر بھی مانگ لیا ۔ میں نے سمجھا خدا سے کوئی غیبی مدد آئی ہے اور خدا کا شکر ادا کیا ۔
میرا شکر البتہ دو تین دن بعد” چلو جی “میں بدلا جب ان ہی صاحب نے اِدھر اُدھر کے میسج کرنے شروع کر دیئے ۔ جب وہ باز نہ آئے، تو میں نے جھوٹ کہہ دیا کہ میں شادی شدہ ہوں میرے خاوند جی میرا فون چیک کرتے ہیں ۔ اس کے دو دن بعد میری والدہ کی ویکسینیشن تھی ۔ میں نے موصوف سے رابطہ کیا کہ مدد مل سکتی ہے ؟ جس پر انہوں نے کہا “جی مشکل ہے” ۔ میرا نقلی خاوند تو میرا دشمن نکلا ! میرے نقلی خاوند کی وجہ سے موصوف کی انسانیت ہی ختم ہو گئی؟ کیا فائدہ ایسے نقلی خاوند کا ؟
میں نے یہ واقعہ ٹویٹر پر لکھا تو ایک شخص نے لکھا ” ہاں تو نمبر دیا تھا ، تو بھگتو اب” ۔ اور مجھے تب احساس ہوا کہ اوہو! غلطی تو میری ہی تھی ۔ چونکہ میں عورت ہوں ، اس لئے غلطی تو ہمیشہ میری ہی ہوگی ۔ چونکہ نمبر عورت کا تھا ، مرد تو بہکے گا ! اسی ہفتے میں پاکستان کے وزیرِاعظم عمران خان نے بھی مجھے احساس دلا دیا کہ غلطی تو میری تھی، ہے اور رہے گی کیونکہ میں عورت ہوں ۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں زور دیا کہ ملک میں جنسی زیادتی کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ انگریزوں کے رسم و رواج کوختم کیا جائے ۔ اور پھر دبے دبے الفاظ اور پولے پولے منہ سے کہہ دیا کہ جب عورتیں پردہ نہیں کرتی تو بہت سے مردوں سے کنٹرول نہیں ہوتا اور پھر وہ جنسی زیادتی پر “مجبور” ہو جاتے ہیں۔
زمانے بھر کے غم اور مرد کی یہ “مجبوری!” اس دنیا نے مرد کا جینا حرام کر دیا ہے۔ کیسے کیسے “مجبور” کیا ہے۔ کیسا کیسا امتحان لیا ہے ۔ کبھی مرد “مجبور” ہو کر اپنے ہی گھر کی عورت سے جنسی زیادتی کر دیتا ہے اور کبھی “مجبور” ہو کر موٹر وے پر ایک ماں کو اُس کے بچوں کے سامنے اپنی جنسی ہوس کا شکار کرتا ہے ، کبھی مرد “مجبور” ہوکر رشتے سے انکار کرنے والی عورت سے بدلہ لینے کے لئے اسے اپنی ہوس کا شکار بنا دیتا ہے، اور کبھی مرد عوت کا ناک، کان، بازو کا کچھ حصۤہ ، ہاتھوں کی انگلیاں، پیر ، آنکھیں، بال ، ہونٹ، جو بھی حصہ نظر آ جائے ، اس سے “مجبور” ہو کر عورت کو اپنی ہوس کا شکار بنا دیتا ہے ۔ اور “مجبوری” ادھر رکتی نہیں۔ مرد 3 سال کے لڑکے کو بھی دیکھ کر “مجبور” ہو جاتا ہے ۔ مرد ایک “مجبوری ” کا مجسمہ ہے جسے کب کیا دکھ جائے اور جو دکھ رہا ہو وہ کس طرح اس کو جنسی زیادتی پر “مجبور” کر دے ، آپ کو کبھی نہیں پتہ چلے گا ۔ کیا انہی “مجبوریوں” کی بات کر رہے تھے آپ،وزیرِاعظم صاحب؟
وزیرِ اعظم صاحب ! عورت ہونے کو جرم نہ بنائیں ۔ عورت کے کپڑوں کو مردں کی درندگی چھپانے کے لئے استعمال نہ کریں ۔ مرد جوصدیوں سے جنسی درندگی کو طاقت کے حربے کے طور پر استعمال کرتاہے۔ کبھی حالتِ جنگ میں اور کبھی عورت کو “مزہ” چکھانے کے لئے ، اسے عورت کے لباس میں چھپانے کی کوشش نہ کریں ۔وزیرِاعظم صاحب! وہ کون سے کپڑے ہیں جو مدرسے کے لڑکوں کو ان “مجبور” مردوں کے شر سے نہ بچا سکے ؟وہ کون سے کپڑے ہیں جو 3 سال کی بچیوں کو مردوں سے بچا نہ سکے؟
وزیرِ اعظم صاحب ! کبھی نظر جھکا کر دیکھیں ، کبھی نظر ہٹا کر دیکھیں ، کبھی اپنے نفس پر قابو کر کے دیکھیں ۔۔۔ پھر نہ آپ کو کسی کے کپڑوں سے شکایت ہوگی اور نہ آپ “مجبور” ہوں گے ۔