یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ میں نے اپنی 70 فیصد زندگی “پتا نہیں ” کہہ کر گزاری ہی ۔ کوئی پوچھے کہ کیا کھانا ہے، میرا جواب ہوتا ہے ” پتا نہیں ” کوئی پوچھے کہ جانا کہاں ہے ،میرا جواب ہوتا ہے ” پتا نہیں ” ،کیا پہننا ہے ،کس سے رابطہ کرنا ہے، کیا دیکھنا ہے، کیا پڑھنا ہے، زندگی کا کوئی بھی کام ہو ، میری کوشش ہوتی ہے کہ ” پتا نہیں ” کہہ کر ہی مسئلے کا حل نکل آئے گا ۔ مسئلے کا اگر حل نہ بھی نکلے تو کم از کم میرے فیصلے سے مسئلہ نہ ذیادہ خراب اور نہ ہی سہی ہوتا ہے۔

یہ تو خیر میری نجی زندگی کی روداد ہے ،لیکن یہ ” پتا نہیں ” کی عادت تو ہماری موجودہ حکومت نے بھی اپنا لی ہوئی ہے۔ بے نیازی اپنے محبوب میں تو اچھی لگتی ہے لیکن اپنی حکومت میں اس قدر بے نیازی دیکھ کر میرا پتا نہیں بھی ” لگ پتا گیا ” بن چکا ہے ۔ میں یہ پورے وسوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اس ” پتا نہیں ” نے زندگی میں مجھے کچھ خاص آگے نہیں پہنچایا ۔لیکن موجودہ حکومت کو شاید یہ پہلے سے ہی معلوم ہے کہ وہ شاید عمر بھر اب شہرِ اقتدار سے نہیں جائے گی ۔ میرے وزیر اعظم عمران خان ،جو ذرائع کے مطابق اس ملک کو چلانے کے ذمہ دار ہیں ، نے اپنے دور حکومت میں اکثر و بیشتر بڑے خوبصورت انداز سے اپنی بے نیازی کا اظہار کیا ہے ۔ کبھی وہ بڑی معصومیت سے کہتے ہیں ” مجھے تو پتا ہی نہیں تھا ” ، اور کبھی کہتے ہیں “مجھے تو ٹی وی سے پتا چلا ” اور کبھی وہ کہتے ہیں ” مجھے تو میری بیوی بشریٰ نے بتایا ” ۔ مجھے ان کی بے نیازی پر ہمیشہ عمر اکمل یاد آ جاتے ہیں جنہوں نے ایک بار کہا تھا ” مجھے نہیں پتا وہاں کیا ہو رہا تھا” ۔ یہ جملہ شاید عمر اکمل نے بھی اس حکومت کے لیے ہی کہا تھا۔

ہمارے وزیرِ اعظم ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے جس میں میزبان کی جانب سے مہنگائی پر سوال اٹھایا گیا ۔ سوال میں پوچھا گیا عوام کیا کرے کیسے گزارا کرے ۔ میزبان کا کہنا تھا کہ لوگ خود کشیا ں کرنا شروع کر دیں گے ۔ جس پر ہمارے وزیر اعظم نے کہا ” تو پھر کیا کریں؟ ” میں نے یہ جملہ کافی بار سنا تا کہ مجھے یقین آ سکے کہ کوئی ایسا بھی ہے دنیا میں جس کو مجھ سے ذیادہ ” نہیں پتا ” ۔ ابھی اس ” پتا نہیں ” سے شناسائی بڑھ ہی رہی تھی کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ” ہم 5 سال کے لیے آتے ہیں ، کچھ سمجھ نہیں آتا اور وقت گزر جاتا ہے ” ۔ پھر وزیراعظم نے ایک محفل میں یہ بھی کہ ڈالا کہ “ہمیں حکومت میں نہیں تھے تو کچھ نظر نہیں آتا تھا”۔ لیکن عمران خان صاحب! آپ کو تو اب بھی کچھ پتا نہیں چل رہا! یہ ایسے ہی جیسے آپ کسی ایسی شادی میں جائیں جہاں نہ آپ کسی کو جانتے ہوں ، نہ کوئی آپ کو جانتا ہو ۔ اور ادھر ادھر دیکھنے میں ہی وقت بیت جائے۔
ملک میں کورونا اسی طرح پھیل رہا ہے جیسے وفاقی حکومت کی کیبنٹ پھیل رہی ہے ۔ہم جو رو رہے تھے کہ چین کی ویکسین سے خاص فرق نہیں پڑنا، اسی دوران وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ پاکستانی حکومت نے تو ویکسین کا آرڈر ہی نہیں دیا ۔اور شاید حکومت کو یہ بھی نہیں پتا ویکسین کون سی خریدنی ہے ۔ عمران خان کہتے تھے کہ باہر سے لوگ پاکستان آئیں گے نوکریاں کرنے ۔فالحال تو باہر سے صرف کورونا آیا ہے، اور وہ شاید کہیں جانے بھی نہیں والا ۔اسی “پتا نہیں ” کے سحر میں دو دن پہلے کپتان نے کہا کہ مہنگائی پر جلد ہی قابو پا لیں گے ۔اور آج میں نے پٹرول سے لے کر میری جینے کی تمنا تک کو مہنگا ہوتے دیکھا ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم اپنے ہر خطاب میں ہمیشہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ان کو سب پتا ہے ۔ ہم ان کی بات سے متفق ہیں۔ لیکن جو ہمارے کپتان کو پتا ہے وہ نہ کہنے کے لائق ہے اور نہ سننے کے لائق ہے۔ جس کی سب سے بڑی مثال شیعہ ہزارہ کا دلخراش واقعہ ہے ۔کپتان کو یہ کہیں سے پتا چل گیا کہ لواحقین ان کو بلیک میل کر رہے ہیں۔نا صرف یہ،بلکہ جیسے جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملائی تھیں، اسی طرح ہزارہ شیعہ کو ڈاکو مافیا سے بھی ملا دیا ۔
میرے پیارے وزیرِ اعظم ، اگر آپ کے پتا نہیں کہنے کا ایک ڈالر ملتا ہوتا تو آج آپ کی قوم لاکھوں کروڑوں کی مالک ہوتی ۔آپ کے ” پتا نہیں ” کی وجہ سے عوام یہ سوچنے پر مجبور ہو گئی ہے یا تو آپ کے پاس اسمارٹ فون کے بجائے نوکیا 3310 فون ہے یا پھر آپ کے پاس سگنل ہی نہیں آرہے ؟ آپ کے اس پتا نہیں کی وجہ سے ہم سب ایک بے یقینی کے عالم یہی سوچتے رہتے ہیں کہ پتا نہیں بجلی آئے گی کہ نہیں، پتا نہیں گیس آئے گی کہ نہیں ، پتا نہیں پٹرول سستا ہوگا کہ نہیں، پتا نہیں آٹا ملتا رہے گا کہ نہیں ، پتا نہیں چینی ملے گی یا نہیں ،پتا نہیں ہم رہیں گے کہ نہیں؟

RELATED STORIES

اب خود ہی بتائیے جب آپ ہی کو کچھ پتا نہیں ہوگا ، کچھ خبر نہ ہوگی ، تو ہمارا کیا ہوگا ؟

وہ میر تقی میر نے شاید یہ شعر ہماری موجودہ حکومت کے لیے ہی کہا تھا:

پتۤہ پتۤہ بوٹا بوٹا
حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ
جانے باغ تو سارا جانے ہے