کہنے دیجئے کہ  ہمیں بطور قوم انگریزی کا ہیضہ ہو گیا ہے  ۔ جی چاہ رہا ہے کہ    ملک کے   انگریزی سے نابلد عوام کو بتاؤں کہ تم کیا  اردو  یا کسی اور زبان میں خیالات کی چڑیا اڑاتے رہتے ہو انگریزی زبان کے در پر اپنا ماتھا ٹیک دو گیان وہیں سے ملے گا۔    کینولی والی خواتین  کی تحقیر آمیز ہنسی ، مینیجر اویس کی واضح بے چینی  معاشرے میں زبان کی بنیاد پر پائی جانے والی ایک نا محسوس لسانی تقسیم    کی طرف اشارہ کرتی ہے  جو باقاعدہ طبقاتی تقسیم میں ڈھل گئی ہے۔  تقسیم در تقسیم کے شکار  معاشرے میں اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو  اس پر   انگریزی زبان  کی بنیاد پر پائے جانے والے احساس کمتری نے  چار چاند  لگا د ئیے ہیں۔

اس واقعہ نے اور کچھ نہیں کیا سوائے اسکے کہ ہمارے روز مرہ کے معاشرتی رویوں کی ایک جھلک دکھا دی ہے جہاں    انگریزی بولنے  پر اگلے کے دل میں ویسے ہی ایک رعب پڑ جاتا ہے کئی در تو صرف دو فقرے بولنے سے ہی کھل جاتے ہیں چاہے سامنے والا زیادہ عقلمند اور صاحب علم کیوں نہ ہو اسکی ساری قابلیت انگریزی زبان نہ جاننے کی بنا پر ٹھس ہو جاتی ہے۔ بھائی انگریزی ایک زبان ہے جیسے باقی زبانیں ہوتی  ہیں اس میں کون سا سرخاب کے پر  لگے ہوئے ہیں  ہاں اسے  بولنا سیکھنا ایک مہارت یا اہلیت تو گردانا جا سکتا ہے  فوقیت نہیں ۔ ہاں اگر انگریزی زبان کی وجہ سے زیادہ ارفع و اعلیٰ خیالات آتے ہوتے تو بات بھی تھی لیکن افسوس سوائے اسکے مجھے تو کوئی ایسی خوبی نظر نہ آئی کہ انگریزی زبان دنیا میں رابطے کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور شاید مختلف بولیاں بولنے والوں کے درمیان پل کا کام کرتی ہے۔  اس  میں  میسر علمی مواد  بھی اچھا خاصا ہے لیکن روسی ،چینی ، ہسپانوی اور دیگر زبانوں میں بھی اسی پائے کی چیزیں پائی جاتی ہیں بلکہ بعض زبانوں کے ادب ، فصاحت و بلاغت کے سامنے تو انگریزی زبان پانی بھرتی ہے۔

خلا میں روسی انگریزی زبان جاننے کی بنا پر تو پہلے نہیں پہنچ گئے تھے یا چین کی معاشی ترقی کا راز انگریزی زبان کی وجہ سے تو نہیں ہے بلکہ عظیم چینی رہنما چو این لائی سے منسوب جملے کے بقول ‘ چین گونگا نہیں ہے’۔ صاحب دوسری زبانو ں کو چھوڑئیے اپنی  اردو کوہی لیجئے  بھلا  میر غالب کے پائے کا شاعر اور داستان امیر حمزہ جیسی دیومالا  جس زبان کے پاس ہوں اسے تو بڑے چاؤ  اور ناز سے  رکھنا چاہئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اسے نصاب کے رٹوں تک محدود کر کے رکھ دیا ہے ۔

RELATED STORIES

خیر بات بھی کہاں سے کہاں نکل گئی دیکھنا یہ ہے کہ  اس  واقعہ سے حاصل کیا ہو گا؟ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ہر ایک نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی، جی بھر کر صلواتیں  سنائیں اویس صاحب کو ان لوگوں نے بھی نوکری کی پیشکش کر دی جو اپنے ملازمین کو چھ چھ ماہ تنخواہ کی مد میں  لٹکائے رکھتے ہیں  ، ہاں جو چیز ہم   بھول گئے  وہ یہ کہ  دو خواتین جو ایک زبان پر پوری طرح سے مہارت نہ رکھنے پر ایک دوسرے انسان کا مذاق اڑا رہیں تھی وہ کوئی اور نہیں میں اور آپ تھے۔ کیا  انگریزی زبان نہ جاننے یا اس پر پوری قدرت نہ رکھنے کی بنا پر ہم  بھی  کیا دوسرے کا مذاق نہیں اڑاتے ؟ کیسا لگا آئینہ میں اپنا اصل روپ دیکھ کر جس پر پتا نہیں کس کس ریا کاری کی پرت چڑھا رکھی ہے  اصل میں  ہم نے کبھی اس گٹر کے ڈھکن کو اٹھانے کی زحمت ہی نہیں کی جہاں زبان کی بنیاد پر ، رنگ اور شکل کی بنیاد پر  اور کسی دوسرے انسان  کے رہن سہن کی بنیاد پر اسے اپنے سے نیچا سمجھا جاتا ہے۔

اگرچہ اس واقعہ میں  مظلوم اردو بن گئی ہے لیکن  کیا یہی معاملہ ہم اپنے ملک کی دیگر زبانوں کے ساتھ نہیں کرتے ؟ پشتو، پنجابی ،سندھی اور بلوچی بولنے والے کو اردو میں بات کرنی پڑ جائے تو اسکا مذاق بن جاتا ہے ۔ اسی لئے مسئلہ اردو انگریزی کا نہیں    بلکہ ، عدم برداشت، معاشرتی رویوں اور سماجی آداب کا ہے ہم سب کے اندر چھوٹی چھوٹی کینولی آنٹیاں بستی ہیں ، ان کو صلواتیں سنانے سے پہلے اپنے گریبان میں بھی جھانک لیجئے۔