RELATED STORIES

LISTEN TO THIS ARTICLE:

5 اپریل 2003کی بات ہے، جیو میں میرا پہلا دن تھا۔ ایچ آر ڈپارٹمنٹ سے ابو طالب بھٹو مجھے نیوز روم لے کر گئے اور تھوڑا بہت بتایا کہ کہاں کون سا ڈپارٹمنٹ بیٹھا ہے۔ اور پھر طالب نے مجھے ایک صاحب سے ملوایا اور کہا کہ اب آپ انصار صاحب کے حوالے۔ وہ میری سید انصار علی نقوی سے پہلی ملاقات تھی ۔ 
میں بہت خوش قسمت رہی کہ مجھے خبروں کی دنیا میں اظہر عباس، ناصر بیگ چغتائی، زاہد حسین، مجدد شیخ، ایم کے عباس جیسے استاد ملے لیکن انگلی پکڑ کر چلنا مجھے انصار بھائی نے سکھایا۔ 
انصار بھائی نے پہلے تعرف پر مجھے مسکرا کر دیکھا اور کہا “کیسی ہو لڑکی، تیار ہو کام کے لئیے؟” 
عام طور سے ہم پہلی مرتبہ ملتے وقت تھوڑا تکلف رکھتے ہیں لیکن ان کے لہجے کی اپنائیت اور نظروں کا خلوص اتنا گہرا تھا کہ میری زبان سے یہی الفاظ ادا ہوئے “میں کام کے لئیے تیار ہوں، آپ سکھانے کے لئیے تیار ہو جائیں، اور میں آپ کو انصار بھائی بلاؤں گی”. وہ اپنے مخصوص انداز سے مسکرائے ، سر اثابت میں ہلایا اور اخبار دے کر کہا کہ پڑھنا شروع کرو۔
بس پھر میں نے پڑھنا شروع کیا اور انھوں نے اسی اخبار کی دوسری کاپی پر مارک کرنا۔ تھوڑی دیر کے بعد انھوں نےاپنا والا اخبار مجھے دیا تو وہ مجھے شرمندہ کرنے کے لئیے کافی تھا۔ لیکن انھوں نے میری غلطیوں کی صرف نشاندہی نہیں کی بلکہ اس کی تصیح بھی کرتے گئے۔ 
میرا ان کا سترہ سال کا ساتھ تھا ، اتنی یادیں اور باتیں ہیں جنھیں قلم بند کروں تو دیوان ہو جائے۔ تو بس بے ربط جو واقعات یاد آتے جا رہے ہیں، لکھتی جارہی ہوں ۔ 
انھوں نے مجھے بینا سرور کے پاس بھیجا اور کہا کہ” تمہیں ہم دس پندرہ دنوں میں ہی دبئی بھیجنے والے ہیں، دنیا دیکھی گی تمہیں، ہماری اور اپنے گھر والوں کی عزت رکھنا، اپنے کام اور کردار دونوں سے” وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ اچھا اینکر بننے کے لئیے theory بہت ضروری ہے۔
بینا سرور نے مجھے فائلوں کا ایک پلندہ دیا کہ اگلے دن اس میں سے ٹیسٹ ہو گا۔ میں نے انصار بھائی کی جانب ایسے دیکھا کہ پہلے ہی دن دھوبی پٹخا!!!! اور انھوں نے انتہائی صفائی سے نظریں دوسری جانب پھیر لیں، جیسے وہ مجھے جانتے ہی نہیں۔
Typical Ansar Bhai!

واضح کر دوں کہ اس وقت واحد نیوز چینل صرف جیو ہی تھا، خبریں دبئی میڈیا سٹی میں موجود جیو کے اسٹوڈیو سے ہوتی تھیں۔ ندا سمیر (اس وقت ندا فاطمہ) خبریں پڑھتی تھیں اور ندا کا شروع کے دنوں میں کچھ ذاتی وجوہات کی بناپر پر پاکستان میں رہنا ضروری تھا۔ اس وقت کوئی بھی خاتون اینکر اسکرین پر نہیں تھی۔ اس لیے جیو کی کوشش تھی کہ مجھے جلد از جلد آن ائر کر دیا جائے۔ اب اتنے کم عرصے میں ایک گھر سے آئی housewife کو سبق گھول کر ہی پلایا جا سکتا تھا۔ تو یہ مشکل کام انصار بھائی کو سونپا گیا اور انھوں نے بھی رات کے تین تین بجے تک دفتر میں بٹھا کر میرا “ر” “ڑ” ٹھیک کرایا (شکر ہے “ش” “ق” درست تھا میرا)۔ 
اور یہی نہیں بلکہ رات کے اس پہر جب میں گھر جاتی تو میرے شوہر نامدار کو فون کرکے میری ساری غلطیاں نوٹ کروا چکے ہوتے کہ اب امی بننے کی تمہاری باری ۔ 
گو کہ جیو میں سب نے مجھے اپنے گھر کا فرد سمجھ کر میری صلاحیتیوں میں اضافے کی کوشش کی، بتایا، سکھایا لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ اگر انصار بھائی نے اتنی محنت نا کی ہوتی تو شاید میں شہرت تو کما لیتی لیکن وہ نام اور عزت نہیں حاصل کرپاتی جو آج مجھے حاصل ہے۔۔
میں کراچی چھٹیوں پر آئی ہوئی تھی اور میرا miscarriage ہو گیا تھا۔ الکریم نے ان کو تلاش کر کے صرف انھی کو اطلاع دینا مناسب سمجھا۔ اس سے بڑھ کر ان پر اعتماد اور قربت کی کیا مثال دی جا سکتی ہے؟
جیو کی ابتدا کی ٹیم ایک خاندان کی طرح تھی۔ ہم اب چاہے کسی بھی ادارے میں ہوں، ہمارے دل ایک دوسرے سے اسی خلوص اور محبت سے بندھے ہوئے ہیں۔ 
مجھے جیو جوائن کئے ڈیڑھ سال ہو چکا تھا، میں دبئی میں ہیbased تھی۔ اور وہاں موجود سب لوگ ایک ہی ہوٹل میں مقیم تھے جسے ہم جیو محلہ کہتے تھے۔ انصار بھائی دبئی کے دفتر کام سے آئے ہوئے تھے۔ لیکن اس عرصے میں، میں اپنے اس نئے خاندان سے خاصی گھل مل گئی تھی۔ تو ہنسی مزاق اور گفتگو بھی بغیر سنسر کے ہوتی تھی۔ کسی کی بات کا جواب دیتے ہوئے میں نے کہہ دیا کہ “پونکا کروں گی”. میری شامت آ ئی کہ انصار بھائی آفس میں پیچھے بیٹھے تھے اور انھوں نے سن لیا۔ اتنی ڈانٹ پڑی مجھے کہ آج تک یہ لفظ دوبارہ نہیں کہا ۔ ان کے غصہ کی وجہ یہ فکر تھی کہ الکریم کیا سوچیں گے کہ کیسا ماحول ہے جیو کا ؟ اس طرح کی زبان استعمال ہوتی ہے ؟اور میرا بیٹا, جو کہ اس وقت دو سال کا تھا, اس کی تربیت پر کیا اثر پڑے گا؟
بتانا یہ چاہ رہی ہوں کہ وہ کام کے ساتھ ساتھ ادارے کے ماحول پر بھی کنٹرول اور نظر رکھتے تھے اور بچوں کی تربیت کو بھی اہمیت دیتے تھے۔ صرف اپنی ذات تک نہیں بلکہ اپنے اطراف کے لوگوں کو بھی balance and ethics in life کی تلقین، ہمیں دل سے اپنا سمجھ کر کرتے تھے۔ وہ ذاتی طور سے ایک family person تھے ۔ ان کے نزدیک فیملی سب سے بڑھ کر تھی اور ہم سب ان کی فیملی ہیں۔ 
میرے والد کو اس دنیا سے رخصت ہوئے دس سال ہو گئے ہیں۔ انصار بھائی کے جانے پر اتنی ہی تکلیف ہورہی ہے جتنی ابو کے جانے پر ہوئی تھی۔
کہتے ہیں وقت بہترین مرہم ہے، آہستہ آہستہ شاہد یہ درد کم ہوجوئے، آنسو بھی خشک ہو جائیں لیکن انصار بھائی میرے دل اور سوچوں کے اس حصے میں ہمیشہ رہیں گے جہاں میرے ابو رہتے ہیں۔

LISTEN TO THIS ARTICLE: